یوم آزادی پر مضمون
اہمیت:
14 اگست کو اہل پاکستان ہر سال اپنی آزادی کی سالگرہ مناتے ہیں۔ یہ دن جدوجہد آزادی کی یاد ہمارے ذہنوں میں تازہ کرتا ہے۔ کسی قوم کی تاریخ میں اس کی آزادی کے دن کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ دنیا کے وہ تمام قومیں جو ماضی میں غلامی اور محکومی کا شکار ہوئے اپنے یوم ازادی کو بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے مناتے ہیں پاکستان میں بھی یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
انگریزوں کا قبضہ:
1857 کی جنگ ازادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکا تھا۔ چونکہ انگریز نے حکومت مسلمانوں سے چینی تھی اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اور انہیں ذلیل وخوار کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا انگریز کے ساتھ ہندو خوشامدی بھی انگریز کے دل میں مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوا دیتا تھا۔
تار یکی کا دور:
گویا مسلمانوں کے لیے یہ تاریکی کا دور تھا۔ مسلمان مایوس تھے ان کی عزت و ابرو بھی محفوظ نہ تھی۔ مسلمانوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ حکومت پر انگریز قابض تھا ہندو دفاتر پر براجمان تھے۔ مسلمان پیس رہا تھا گویا مسلمان مسلمانوں پر عرصہء حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔
شمع آزادی:
ظلم، تشدد بغاوت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ انگریز اور ہندو نے مسلمانوں پر ہر طرح ظلم و ستم روا رکھا تھا۔ اس نازک اور سنگین دور میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے کئی لیڈر پیدا کیے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے اندر آزادی کی شمع روشن کی ان عظیم رہنماؤں میں سر سید احمد خان، مولوی نظیر احمد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی، محمد علی جوہر، اور مولانا شوکت علی، قابل ذکر ہے ان رہنماؤں نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔
تصور پاکستان:
پاکستان کا تصور سب سے پہلے علامہ اقبال نے 1930ء میں ال انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا۔ آپ نے اپنے خطبے صدارت میں فرمایا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔ جن میں اب تک نہ اتحاد ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اس لیے برصغیر میں رہنے والے قوموں کا سیاسی حل یہی ہے کہ ہندوستان کے جن خطوں میں مسلمان ریاست قائم کر دی جائے۔ یہ تصور جلد ہی مسلمان ہند کے دلوں کی دھڑکن بن گیا اور وہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔
تاریخ ساز دن:
23 مارچ 1940 ء وہ تاریخ ساز دن ہے جس میں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت لاہور کے منٹو پارک میں پاکستان کا مطالبہ کیا حقیقت یہ ہے کہ پوری قوم نے قائد اعظم کی ولولہ انگریز قیادت میں اپنی منزل کو پا لیا تھا۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا تھا۔ آخر وہ تاریخی ساز دن ان پہنچا جب دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست پاکستان وہ معرض وجود میں ائی۔
قیام پاکستان کا مقصد:
قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے اندر مسلمانوں کا ایک الگ وطن ہو۔ جس میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت قائم ہو۔ مسلمان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکے پاکستان اسلامی زندگی کا ایک تجربہ گاہ ہو۔ ہم اپنی تہذیب و تمدن کا بہتر طور پر تحفظ کر سکے۔ ہماری معاشی مسائل بہتر طور پر حل ہو سکے۔ گویا پاکستان ایک ایسی خطہ ارض ہو جو اسلام کی عملی تجربہ گاہ ہو اسلامی معاشرہ کی خوبیاں ملتی ہو افسوس کہ ہم ان عظیم مقاصد کو اب تک نہ پاسکے ۔
0 تبصرے