نظریہ پاکستان پر مضمون:
پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس کے حصول کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جان و مال عزت و ناموس کی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ تقسیم ملک کہ خونریز فسادات کے تصور سے اج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخر قیام پاکستان کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال کا جواب جاننا ہمارا لیے اج بھی اہمیت رکھتا ہے۔
ہر انسان کے سامنے اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اس مقصد کے بغیر انسان کی زندگی بے معنی ہوتے ہے ۔ جب کوئی خاص مقصد بہت سے لوگوں کی زندگی کا مشترکہ نصب العین بن جائے تو وہ ان کے مشترک کا نظریہ حیات کہلاتا ہے۔ اور کسی بھی انقلابی تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ کا فرما ہوتا ہے۔ اور قوم کی اجتماعی زندگی میں نظریے کی حیثیت روح کی ہوتی ہے۔
نظریہ پاکستان کے تاریخی احوال:
یہ بات واضح ہے کہ موجودہ ہندوستان اور پاکستان تاریخی طور پر کبھی بھی ایک ملک نہیں رہے۔ صرف اشوک، علاؤ الدین خلجی،اور اورنگزیب عالمگیر، کے زمانے میں وہ تمام علاقے ایک حکومت کے تحت تھے۔ جنہیں انگریزوں کے دور میں ہندوستان کہا جاتا تھا باقی ادوار میں یہ علاقہ مختلف ریاستوں میں بٹا رہا۔ موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے علاقے کو قدیم تاریخوں میں ہمیشہ سندھ، ہند، اور دکن، کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے اور وہ علاقہ جس کو ہند کہا جاتا تھا۔ اس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش شامل نہیں تھے۔
انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ:
جب انگریز اس ملک پر مسلط ہوا تو ہندو نے ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا اور دونوں مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے لگے۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمان کی حالت اور ابتر ہو گئی۔ جبکہ ہندو اور انگریز کے درمیان تعاون اور بڑھ گیا۔ ہندوؤں نے ایک طرف انگریزوں کا الہ کار بن کر ان کی حکومت کو مضبوط کیا دوسری طرف مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے غلام بنانے کی کوشش شروع کر دی۔
تحریک علی گڑھ:
ہندوؤں اور انگریزوں کے گٹ جوڑ نے مسلمانوں کو محتاج اور پسماندہ بنا رکھا تھا۔ لیکن سر سید احمد خان کی علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا اور اس طرح مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی۔
ہندوؤں کا تعصب:
ہندو نے کئی ایسی تحریکیں شروع کیے جن کا مقصد مسلمانوں کو ختم کرنا تھا۔ انہیں ہندو بنانا تھا۔ اسی بنا پر انہوں نے تقسیم بنگال کو ختم کروایا۔ حد یہ کہ انگریز فوج میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر ملٹری اکیڈمی پونا میں بنائی گئی۔ کھالیں پیدا کرنے والے علاقے موجودہ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر چمڑے کی کارخانے صرف یو پی( بھارت) میں قائم تھی۔ پورے پاکستانی علاقوں کے لیے صرف ایک یونیورسٹی تھی جبکہ صرف یو پی میں 7 یونیورسٹیاں تھی۔ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی تعداد بے حد تک کم تھی۔ان سب باتوں سے ہندوؤں کا مسلمانوں کے خلاف تعصب ظاہر ہوتا تھا۔
نظریہ پاکستان اور قائداعظم:
شروع میں مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے کے حامی تھے۔چنانچہ انہوں نے کانگرس کی تحریک عدم تعاون میں بھرپور حصہ لیا۔ اس لیے قائد اعظم بھی کانگریس کے ساتھ تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب تحریک خلافت شروع ہوئی تو ہندوں نے شروع میں ساتھ دیا مگر عین نازک موقع پر الگ ہو گئے۔ قائد اعظم نے ہندو سے تنگ آکر علامہ اقبال کے پیش کردہ دو قومی نظریے کی حمایت شروع کر دی۔ جسے سر سید احمد خان اپنی تحریروں میں پیش کرتے رہتے تھے۔ کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہے اور دونوں کا ساتھ رہنا ناممکن ہے مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے کی تاریخ ساز اجلاس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے دو قومی نظریے کو بڑے موثر اور خوبصورت انداز میں پیش کیا اپ نے فرمایا،
" اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہے بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہے۔ چنانچہ اسی خواہش کو خواب وہ خیال کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ میں صاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں۔ جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ قائد اعظم کی زیر قیادت ان کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں بلاخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کی ایک عظیم ترین اسلامی سلطنت کی صورت میں دنیا کے نقشے پر وجود میں ایا"۔
0 تبصرے