خط لکھنے کا طریقہ:
خط کی تعریف۔
خط کو نامہ اور مکتوب بھی کہتے ہیں۔ یہ تحریر گفتگو کا دوسرا نام ہے۔ بعض لوگ اسے نصف ملاقات کا نام دیتے ہیں۔ خط کی زبان سادہ، شگفتہ اور روز مرہ بول چال کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ اسے پڑھ کر وہی لطف اور فائدہ حاصل ہو جو آپس کی ملاقات سے ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مکتوب نگاری کا انداز بدل چکا ہے اور مطلب کی بات کو سیدھے سادہ اور مختصر انداز میں بیان کرنا خط کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔
خط نسخ :
* خط کا مضمون ایک ہی پیراگراف میں لکھنے کی بجائے ایک سے زیادہ پیراگرافوں میں تقسیم کر لیں۔
* بعض لوگ نہ اپنا نام خط کی پیشانی پر بھی لکھتے دیتے ہیں۔یہ طریقہ بالکل غلط ہے، اپنا نام ہمیشہ خط کے خاتمے پر پر لکھیں۔
* ذاتی خطوط میں خاتمے پر اپنا نام کے ساتھ اپنی تعلیمی ڈگری وغیرہ لکھنا مناسب نہیں البتہ سرکاری خطوط درخواستوں میں تعلیمی قابلیت کا حوالہ ضروری ضرور دیں۔
* سالانہ امتحان میں خط لکھتے وقت اپنی اور اپنے اسکول کا نام یا مقام وغیرہ کبھی نہ لکھے، اس موقع پر مقام روانگی کی جگہ کمرہ امتحان اور نام کی جگہ اپنا رول نمبر یا ا،ب،ج، کے الفاظ لکھیں۔
خط استوا :
یہ خط کا مرکزی حصہ ہوتا ہے۔ کاتب،مکتوب الیہ کو جو کچھ لکھنا چاہتا ہے۔ اس حصے میں تحریر کر دیتا ہے۔ خط کا یہ حصہ نہایت موثر اور جاندار ہونا چاہیے۔ ایک عمدہ خط کا اندازہ اس کے نفس مضمون ہی سے لگایا جاتا ہے۔
خط استوا
:
مقام روانگی اور تاریخ :
جس مقام سے خط لکھا جائے اور مقام کا نام خط کی پیشانی پر دائی کونے میں لکھا جاتا ہے اور اس کے نیچے خط لکھنے کی تاریخ درج کر دی جاتی ہے۔ مثلا :
ربیع ,منزل۔ لاہور
القاب وآداب:
مکتوب الیہ کو مخاطب کرنے کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہیں القاب کہتے ہیں۔ القاب کے ساتھ مناسب اداب بھی لکھے جاتے ہیں۔ القاب کو اداب کے استعمال میں مکتوب عالیہ کی عمر مقام اور مرتبے کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ ان دونوں چیزوں سے کاتب اور مکتوب عالیہ کی باہمی تعلق کی نوعیت کا پتہ بھی چلتا ہے۔ مثلا:
استاد محترم! آداب و تسلیمات
پیارے دوست حمزہ! اسلام علیکم
خط کا اختتام:
خط کا مضمون موقع محل کے مطابق دعائیہ کلمات یا " سلام " کے الفاظ لکھ کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ خط کے خاتمے پر ایک سطر چھوڑ کر کاتب کو اپنا نام لکھنا چاہیے۔ کاتب اپنا نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا لفظ بھی ضرور لکھے جو مکتوب عالیہ کے ساتھ اس کا تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلا :
آپ کا تابدار شاگرد،
وقار.
0 تبصرے