Header Ads Widget

علامہ محمد اقبال

علامہ محمد اقبال مضمون 

:ابتدائی زندگی 

علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو شہر سیالکوٹ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ یہ بڑے نیک سیر اور صوفی منش انسان تھے۔ ان کے خاندان کو اسلامی ۔ تصوف سے گہرا لگام تھا۔


https://www.paktaleem.online/2024/02/blog-post_28.html

 

                                              :تعلیم و تربیت 

ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ پھر کچھ عرصے مشن سکول سیالکوٹ میں پڑھے۔ یہاں شمس العلماء علامہ میر حسن جیسے مشفق اور فاضل استاد نے اپنے شاگرد کے جو ہر کو چمکا دیا اور اس میں صحیح علم و ادب پیدا کر کے کر دیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد مشن کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے۔ اس کالج سے اپ نے ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔ پھر اپ کو تکمیل کے لیے لاہور انا پڑا گورنمنٹ کالج لاہور سے 1897ء میں بی اے پاس کیا۔ بی اے کے بعد اپ نے ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا خوش قسمتی سے اپ وہاں سر تامس آرنلڈ جیسی فاضل اور شفیق پروفیسر مل گیا جس نے اپ کی اصلاحیتوں کو بھانپ لیا اور جوہر قابل پاکر اپنے تمام محنت اور کوشش ان پر صرف کر دی۔

  :یورپ روانگی 

اپ ایم اے پاس کرنے کے بعد کالج میں پروفیسر بن گئے۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کیا۔ مگر عزم بلند نے انہیں مجبور کیا کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائے اخر وہ انگلستان تشریف لے گئے کیمرج یونیورسٹی سے بیرسٹرکی ڈگری حاصل کی۔ پھر میونخ یونیورسٹی ( جرمنی) سے  ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر کے تعلیم کو عروج تک پہنچا دیا اس طرح کامیاب ہو کر ہندوستان واپس ائے۔

 :سیاسی سرگرمیاں 

علامہ اقبال نے ساری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں بسر کی مگر انہوں نے 1926 میں عملی سیاست میں قدم رکھا۔ 1930 میں ال انڈیا مسلم لیگ کے جلسہ کی صدارت کی پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس میں نمائندگی کی ال انڈیا مسلم لیگ کے الہ اباد کے جلسے میں قوم کے سامنے پاکستان کا تصور پیش کیا جسے قائد اعظم نے اپنی خداداد قابلیت تدبر سے عملی جامہ پہنایا۔

 اپ کی اواز نہایت بلند اور خوش آئند تھی۔ اپنی نظم تحت الفاظ  پڑھتے تھے ۔ ان کا کلام تاثرات وہ مشاہدہ کا نتیجہ تھا اپ کی مضامین اور اعلی خیالات کی شعر کی پابندیوں کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہوتے تھے۔ اس لیے بعض دفعہ اپ کی اشعار ذرا مشکل ہو جاتے تھے کچھ عرصے بعد اپ کی شاعری کا رخ اردو سے ہٹ کر فارسی کی طرف ہو گیا کیونکہ اردو میں اتنی استداد تھی نہ اتنی وسعت کی ان کے مطالب باسانی ادا کر سکے۔ 

اپ کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ نے مسلمانوں میں حریت کا جذبہ مذہب کی حفاظت کا خیال پیدا کر دیا ہے اقبال نے اپنی شاعری کو نسخہ کیمیاء بنا کر مسلمانوں کی معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کو کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ اور انہیں ہمت افزائی اور خودداری کا سبق دیا ہے۔

: تصانیف 

 ،فارسی مثنوی "اسرار خودی، رموز بےخودی، پیام مشرق اور زبور عجم " فارسی میں بہترین کتابیں ہیں۔ جن میں نہایت عمدہ طریقے سے بلند اور حکیمانہ خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔" زبور عجم " اپنی غلام ملک کی ناگفتہ حالت سے متاثر ہو کر ملک و ملت کے لیے شاہراہ عمل تیار کی گئی ہے۔

ان کے علاوہ اپ کی کتابیں " جاوید نامہ" بانگ درا " بال جبریل "ضرب کلیم"  اور ارمغان حجاز" بھی قابل قدر کارنامے ہے ان تصانیب کی بنا پر اہل ملک نے ان کو ترجمان حقیقت کا موضوع خطاب دیا۔ اور انگریز حکومت نے علم و ادب کی خدمت کے صلے میں اپ کو" سر" ہ معزز خطاب عطا کیا تھا۔

:شخصیت

اپنے زمانے کے بڑے پ فاضل اور عالم تھے۔ اردو فارسی اور عربی پر بڑا عبور تھا۔ قران اور حدیث کا خوب مطالعہ تھا ۔ اسلام کی محبت ان کی رگوں میں سرایت کر چکی تھی۔  بہت سادہ مزاج تھے نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔  حد درجہ کے مہمان نواز تھے۔


Read more



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے